نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ ”ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکتا....“ آج کی نوجوان نسل والدین کے ساتھ احترام سے پیش نہیں آتی۔ بیشتر گھرانوں کے بزرگ اپنی اولاد سے نالاں نظر آتے ہیں مگر کچھ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کچھ کہیں تو اولاد کی بدتمیزی اور بڑھ جاتی ہے۔ اس میں قصور کس کا ہے؟ غلط تربیت کا یا یہ مکافات عمل ہے ۔تھوڑی دیر کے لئے غیر جانبدار ہو کر سچائی سے اپنا محاسبہ کریں تو جو سمجھ میں آئے اسے کھلے دل سے مان لیجئے گا۔
آج میں آپ کو ایسے ہی ایک جوڑے کی کہانی سنا رہی ہوں جس نے والدین کی نافرمانی کی حد کر دی اور پھر خود سزا پائی اور عبرت کا نمونہ بنے ۔ علیم سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، پانچ بہنوں کے بعد پیدا ہوا لہٰذا بہت لاڈاٹھائے گئے۔ بہت سالوں بعد ایک اور بھائی پیدا ہوا مگر علیم کی طرح لاڈلا نہ بن سکا۔ سارے گھر اورخاندان کا دلارا علیم تھا ۔ایف اے کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ کر ایک پرائیویٹ فرم میں جاب کر لی۔ وہیں اس کی ملاقات صبا سے ہوئی اوریہ ملاقاتیں اور پسندیدگی آخر کار شادی پر منتج ہوئی۔ گھر کے کسی فرد کو صبا اور اس کے گھر والے پسند نہیں تھے مگر بیٹے کی ضد کے آگے ہار مان لی۔ صبا نے آتے ہی شوہر سے سب کو چھڑوا دیا اور اسے لیکر الگ اپنے میکے کے پاس کرائے پر مکان لے لیا۔ مہینے میں ایک یا دو مرتبہ علیم والدین سے ملنے آتا پھر دن مہینوں میں بدلنے لگے اور وہ مہینوں اپنی شکل نہ دکھاتا۔ ماں بیچاری بیٹے کی راہ دیکھتی رہتی۔ یوں چھ برس بیت گئے۔ وہ اولاد کی نعمت سے محروم رہے مگر ممتا کی ماری ماں دن رات ان کے لئے دعا کرتی کہ اے اللہ! تو میرے بیٹے کو صاحب اولاد کر دے۔ آخر کار خدا نے ماں کی دعا سن لی۔ جب ماں کو پتہ چلا کہ بہو امید سے ہے تو ان کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ بیمار ہونے کے باعث سفر کے قابل نہ تھیں اور بہو آنے کی روادار نہ تھی یونہی سات ماہ بیت گئے۔ ایک دن اچانک انہیں زبردست ہارٹ اٹیک ہوا۔ تین دن ایمرجنسی وارڈ میں رہنے کے بعد انہیں ہوش آیا تو بیٹے اور بہو سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ ان کے شوہر نے مجبور ہو کر بیٹے کے گھر فون کیا تو بہو نے کہا کہ ابھی وہ فارغ نہیں ہیں کبھی آجائیں گے اور اپنے میاں کو فون کے متعلق نہ بتایا آخرکار سات دن بعد ان پر دوسرا اٹیک ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ مرتے وقت بھی ان کی زبان پر علیم ہی کا نام تھا جب والدہ کی وفات کی خبر ملی تو علیم اکیلے ہی آیا اور گلا کیا کہ مجھے بیماری کی اطلاع کیوں نہیں دی اور جواب سنے بنا ماں کی تدفین کے بعد واپس چلا گیا۔ گھر والوں پر جو بیتی وہ الگ داستان ہے مگر پھر ان کے احتساب کا دور شروع ہوا۔ دو ماہ بعد ان کے ہاں ایک بیٹے نے جنم لیا دونوں میاں بیوی بہت خوش تھے مگر یہ خوشی دیرپا ثابت نہ ہو سکی کیونکہ بچے کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی صبا گلے کے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو گئی ساتھ ہی اس پر ہیپاٹائٹس کا حملہ ہوا اور وہ بستر سے لگ گئی۔ بچے کو اس سے دور رکھنے کیلئے ڈاکٹروں نے کہا کہ اسکی بیماری کے وائرس بچے کو بیمار کر دینگے یوں بچہ اس سے جدا کر دیا گیا وہ اپنے بچے کو صرف دور سے دیکھ سکتی تھی مگر پیار نہیں کر سکتی تھی، اسے ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی۔ وہ بچے کو چھونے پیار کرنے کو تڑپتی مگر کر نہ سکتی تھی۔ یوں تڑپتے ہوئے دو سال بعد ہسپتال کے بستر پر اس نے دم توڑ دیا۔ اب علیم اپنے بچے کے ساتھ اکیلا رہ رہا ہے کیونکہ بہن بھائیوں اور باپ کو خود اس نے چھوڑ دیا تھا۔ اب کس منہ سے انکے پاس جائے اور اپنادکھڑا کیسے سنائے کہ دکھ تو صرف اپنے سنتے ہیں جب خود ہی اپنوں سے کنارہ کر لیا تو کسی کا کیا قصور۔ اب وہ ماں اور بیوی کی قبروں پر جاتا ہے۔ ماں سے معافی مانگتا ہے اور بیوی کی بخشش کیلئے گڑ گڑاتا ہے۔ دعا کریں کہ ماں اسے معاف کر دے تاکہ اسکی بیوی کی اور اس کی خطائیں معاف ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے( آمین )۔
قارئین سے میری التماس ہے کہ آپ بچوں کی تربیت صحیح انداز سے کریں۔ انہیں ادب سکھائیں تاکہ آئندہ زندگی میں وہ معاشرے کا مہذب فرد بن سکیں اور والدین کی عزت کو ہر چیز پر مقدم جانیں ہم اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طریقے سے نبھائیں اور اولاد کی تربیت توجہ سے کریں تو آئندہ کوئی علیم جیسا شخص پیدا نہ ہو گا۔ آزمائش شرط ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں